واشنگٹن: افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے کہا ہے کہ ہمیں افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی ضرورت نہیں۔
وائس آف امریکا اردو کو انٹرویو میں تھامس ویسٹ نے طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کسی بھی تیسرے فریق کی ضرورت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ڈائیلاگ براہ راست ہونے کی ضرورت ہے اور میں خود طالبان حکومت کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہوں۔
یہ بات انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہا جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات یا بات چیت کے لیے امریکا کو سہولت فراہم کرسکتا ہے۔
تھامس ویسٹ نے مزید کہا کہ سچ پوچھیں تو مجھے نہیں لگتا کہ طالبان کے ساتھ رابطے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ہمیں کسی تیسرے ملک کی ضرورت ہے۔ میں اور امریکی حکومت میں میرے دیگر ساتھی اس پر کام کر رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں تھامس ویسٹ نے اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا کہ امریکا کو افغانستان تک آپریشنل رسائی کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی ضرورت ہے۔
امریکی خصوصی نمائندے نے مزید بتایا کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان سے انخلاء کے بعد ہم نے اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کیا ہے جس کا اظہار امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظوہری کی ہلاکت سے بھی ہوتا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ امریکا نے کابل میں ایمن الظواہری پر ڈرون حملے میں پاکستان کے کردار سے انکار کیوں نہیں کیا تو ویسٹ تھامس نے صرف اتنا کہا کہ ایمن الظواہری کو پناہ دینا طالبان کی جانب سے دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔
ویسٹ تھامس نے مزید کہا کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے باوجود ہم نے خطے میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ دہشت گرد دوبارہ کبھی امریکا یا ہمارے اتحادیوں کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
طالبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے سے امریکا کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ طالبان حکومت کے ساتھ سفارت کاری جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ دہشت گردی کی سرکوبی اور تمام افغان طبقات کو حقوق کی فراہمی کے وعدوں کی پاسداری کریں اور اس کے لیے وہ ممالک بھی جن کی سرحدیں، زبانیں، ثقافتیں اور روایات یکساں ہیں یہ کام تکمیلی انداز میں کرسکتے ہیں۔
اس موقع پر تھامس ویسٹ نے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کا افغانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ناقابل یقین حد تک اہم اور قابل اعتبار کردار ہے اور پاکستان سمیت انڈونیشیا، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر ممالک اس پر کام کر رہے ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے بتایا کہ اسلام آباد میں اپنے 3 روزہ قیام کے دوران ایک اہم شراکت ریاست کے طور پر حکام کے ساتھ افغانستان میں ہمارے مشترکہ مفادات کے حوالے سے بات چیت کی۔
تاہم اس سوال پر پر کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوال کیوں اٹھایا تو انھوں نے جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس اس سوال پر مزید کہنے کو کچھ نہیں۔
طالبان نمائندوں سے دوبدو ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے تھامس ویسٹ نے بتایا کہ گزشتہ برس اگست میں انخلا کے بعد سے پہلی بار امریکی حکام نے دوحہ میں طالبان وفد سے ملاقات کی جس میں افغانستان کو دوبارہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
The post طالبان کیساتھ مذاکرات کیلیے کسی بھی ملک کی ضرورت نہیں، امریکا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » انٹر نیشنل https://ift.tt/PMaEWbn