Skip to main content

بندۂ مزدور کے حالات

دورِجدید میں ہی نہیں یہ رسم قدیم ہے کہ امراء، حکم راں اور نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے اپنے دور میں عوام الناس جن کی اکثریت محنت کشوں کو یہ یقین دلاتی رہی ہے کہ ان کی ابتر معاشی صورت حال ان کے مقدر کا لکھا ہے اور انہیں بغیر اس پر سوچے کہ آخر ایسا کیوں ہے بلاچوں وچرا اپنی اس ابتر معاشی صورت حال پر قانع رہنا چاہیے۔

انہوں نے پسے ہوئے طبقات کو یہ باور کرانے کی پوری کوشش کی ہے کہ سرمایہ داروں کو تو ان کی ضرورت ہی نہیں ہے، سرمایہ دار تو دیالو ہیں، وہ تو ان کے لیے صنعتوں کو قائم کرتے ہیں اور اگر سرمایہ دار صنعتیں نہ لگائیں اور انہیں اجرت پر نہ رکھیں تو وہ بھوکے مرجائیں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے محنت کش جو دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں، اگر وہ محنت نہ کریں تو دنیا بھر سرمایہ دار فاقے پر مجبور ہوجائیں۔ آخر وہ کب تک اپنی لوٹی ہوئی دولت پر قناعت کرسکتے ہیں؟

اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ محنت کش دن رات اپنی محنت سے اشیاء کی تخلیق میں مصروف ہے لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی انتہائی کٹھن اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف مٹھی بھر سرمایہ دار حکم راں طبقے کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 8 امیرترین انسانوں کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زیادہ دولت ہے، جب کہ ایک سال قبل یہ تعداد 62 تھی۔

پاکستان میں محنت کشوں نے کبھی اچھے دن نہیں دیکھے۔ آٹھ گھنٹے کے اوقات کار پاکستان میں خواب بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر نجی شعبے میں تو محنت کشوں کے لیے کام کے اوقات کار مخصوص ہی نہیں ہیں۔ یہاں کا سرمایہ دار محنت زیادہ لو اور معاوضہ کم دو کے عالمی سرمایہ داروں کے منشور پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان میں نجی شعبے میں تو روزگار کی کوئی ضمانت ہی نہیں دی جاتی ہے بل کہ مالک جب چاہے کسی بھی ملازم کو ملازمت سے برخاست کر سکتا ہے اور آپ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کرسکتے، اس لیے کہ آپ کے پاس ملازمت کا کوئی قانونی معاہدہ ہی نہیں ہوتا۔

مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے قوانین ہونے کے باوجود فیکٹری مالکان ان بوگس قوانین کو ماننے سے سرعام انکار کرتے ہیں۔ ان قوانین کا اطلاق کرانے کے لیے محکمۂ محنت بھی موجود ہے۔ لیکن اس ادارے کے کرتا دھرتا سرمایہ داروں سے اپنی اس دلالی کا معاوضہ پاتے اور اس کے صلے میں محنت کشوں کا استحصال کرنا اپنے فرائض منصبی سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 12ستمبر 2012 کو کراچی میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہول ناک صنعتی سانحہ وقوع پذیر ہوا۔

جس میں 255 مزدور جاں بہ حق اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ تفتیش کے نتیجے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی گئیں، جن میں حفاظتی نظام اور آگ بجھانے کا طریقۂ کار بالکل موجود نہ تھا۔ زندہ بچ جانے والے مزدوروں کے مطابق انتظامیہ نے فوری طور پر مزدوروں کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی تھی اور اس کے بہ جائے انہوں نے پہلے اپنا مال بچانے کی کوشش کی۔ مہلک آگ نے بھی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے طریقۂ کار کو بے نقاب کیا۔ ایک معائنہ کمپنی ’’رینا سروسز‘‘ نے آگ لگنے کے واقعہ سے صرف 22 دن قبل سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا کہ فیکٹری میں حفاظت کے نظام اور آگ سے بچاؤ کے ضروری انتظامات موجود ہیں اور لیبر قوانین کی پابندی کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں کارخانے کے مالکان محکمۂ محنت سے ساز باز کر کے مزدوروں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ ٹریڈ یونین رجسٹرڈ نہ کروا سکیں۔ اس کے لیے بنیادی حربے کے طور پر وہ جعلی یا زرد یونین جو فرضی ملازمین پر مشتمل ہوتی ہے کو رجسٹرڈ کراتے ہیں، جس سے اصل مزدوروں کے لیے یونین کو رجسٹرڈ کروانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

چھوٹے کارخانوں میں کام کرنے کے حالات بڑے کارخانوں کی نسبت زیادہ بُرے ہوتے ہیں۔ چھوٹے کارخانوں کے مالکان مزدوروں کی مقرر کردہ کم از کم تن خواہ سے بھی کم اجرت ادا کرتے ہیں اور ملازمت کے لیے معاہدہ کم مدت کے لیے کرتے ہیں، جو زبانی ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے کارخانوں میں بھی مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بہ شمول مقرر ہ اوقات کار سے زاید کام کرانا، چھٹی نہ دینا اور کم میعاد کے معاہدے کرنا جو تحریر نہ کیے گئے ہوں شامل ہیں۔

کارخانوں میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کے بُرے حالات کا احتساب نہ کرنا صنعتی تنازعات کی اصل وجہ ہے۔ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں تمام کارخانوں میں ہوتی ہیں جن میں ملکی قانون پر عمل نہ کرنا اور ضابطہ اخلاق کی پیروی نہ کرنا شامل ہیں۔ مزدور جن میں کئی خواتین شامل ہیں، ان کے ساتھ جنسی، زبانی اور جسمانی بدسلوکی عام اور اکثر خبروں میں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ جبری طور پر زاید وقت کے لیے کام کرانا۔ زچگی کے دوران رخصت کی تن خواہ نہ دینا۔ بیماری کی چھٹی سے انکار اور مقرر کردہ کم از کم تن خواہ ادا کرنے میں ناکامی شامل ہے۔ چھوٹے کارخانوں میں کم عمر بچوں کو بھی ملازم رکھا جاتا ہے، تاکہ انہیں کم از کم مقررہ تن خواہ بھی ادا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی زاید وقت کی اجرت ادا کرنا پڑے، کیوں کہ 18 سال سے کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہوتا اور اس کو کارخانے داروں کی جانب سے طے شدہ اجرت نہ دینے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کے متعلق قوانین، پاکستانی حکومت پر یہ ذمے داری عاید کرتے ہیں کہ وہ مزدوروں کے حقوق کی پاس داری کو یقینی بنائے اور جب بھی ان کے ساتھ زیادتی ہو ان کو اس کے ازالے کے لیے رسائی حاصل ہو۔ محکمۂ محنت جو چاروں صوبوں میں موجود ہے کو کہا جائے کہ وہ موثر قوانین کے ساتھ مزدوروں کے کام کرنے کے حالات کا معائنہ کرے اور ان کو قوانین لاگو کرنے کے لیے اختیارات حاصل ہو ں۔ لیکن تاحال پاکستان میں محکمۂ محنت کا معائنہ نظام بالکل غیر موثر ہے اور رشوت کے الزامات کا باعث ہے۔

مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی بنیادی ذمے داری حکومت پاکستان پر عاید ہوتی ہے۔ پاکستانی قوانین بین الاقوامی معیار بہ شمول آئی ایل او کنونشن پر پورے نہیں اترتے۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متعلقہ لیبر قوانین پر نظرثانی کرنا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔ پاکستان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012 اور صوبائی قوانین بین الاقوامی لیبر تنظیم (آئی ایل او) بہ شمول کنونشن نمبر 87 برائے آزادی انجمن سازی۔ کنونشن نمبر 98 حقوق برائے اجتماعی سودا کاری و تنظیم جن کی پاکستان نے توثیق کی ہوئی ہے کہ معیار پر پورے نہیں اترتے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی منافع اور شرح منافع ہے اور اس منافع کے حصول کی ہوس میں یہ سرمایہ دار اور حکم ران طبقے کی پشت پناہی سے محنت کشوں کا خون تک نچوڑ رہا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا معاشی بحران بڑھے گا اور مقتدر طبقے کی پالیسیاں بھی مزید وحشت ناک ہوتی جائیں گی۔

اس کرۂ ارض پر دنیا بھر کے انسانوں کی تمام ضروریات کے تمام وسائل موجود ہیں، مسئلہ ان کی ملکیت کا ہے۔ یہ وسائل ہم سب کے مشترکہ ہیں مگر ان پر چند سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سام راجی اداروں نے بہ زور قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہمیں متحد ہوکر ان غاصبوں سے اپنے حقوق واپس لینا ہیں اور اس کے لیے منظّم، مربوط اور مسلسل جدوجہد بنیادی راہ نما اصول ہیں، ہمیں ان اصولوں پر گام زن رہتے ہوئے ہی اپنے حقوق کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔

The post بندۂ مزدور کے حالات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو » پاکستان http://bit.ly/2vxWl2x

Popular posts from this blog

افغانستان میں 6.1 شدت کا زلزلہ، 250 افراد ہلاک

کابل:  افغانستان میں 6.1 شدت کے زلزلے سے 250 افراد ہلاک اور500 سے زائد  زخمی ہوگئے۔ غیرملکی میڈیا نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں  زلزلے سے 250 افراد ہلاک اور500 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔زلزلے سے پکتیکا میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ زلزلے کا مرکز خوست شہر سے 27 میل دور تھا اوراس کی گہرائی 31 میل تھی۔ زلزلے کے جھٹکے افغان دارالحکومت کابل میں بھی محسوس کئے گئے۔افغان حکام نے امدادی ٹیموں سے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کی اپیل کی ہے۔ افغانستان میں زلزلے نے تباہی مچا دی، 250 سے زائد افراد جاں بحق، صوبہ پکتیکا سب سے زیادہ متاثر ہوا، ریسکیو ٹیمیں پکتیکا پہنچ گئیں، امدادی سرگرمیاں شروع، زلزلے سے اب تک 1250 افراد زخمی ہوئے ہیں pic.twitter.com/5BoyWwge9P — ترکیہ اردو (@TurkeyUrdu) June 22, 2022 زلزلے سے کچے مکانات گر گئے اورزمین میں دراڑیں پڑگئیں۔حکام نے زلزلے سے اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہرکیا ہے۔ زلزلہ بھارت کے کچھ علاقوں میں بھی محسوس کیا گیا۔ The post افغانستان میں 6.1 شدت کا زلزلہ، 250 ا...

ملیے جاپان کی سب سے خوبصورت ٹرک ڈرائیور سے

ٹوکیو:  بہت بڑا ٹریلر یا ٹرک عموماً مرد حضرات ہی چلاتے ہیں لیکن جاپان میں 24 سالہ خوبرو لڑکی بڑی مہارت سے یہ ٹرک چلاتی ہے اور اس کا حسن دیکھ کر لوگ اسے سراہتے ہیں تاہم وہ چاہتی ہے کہ لڑکیاں بھی اس شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔ رائنو ساساکی جاپانی علاقے کوچی میں رہتی ہے اور 7 سال قبل اس کے ٹرک ڈرائیور والد شدید بیمار ہوگئے جس کے بعد رائنو نے سیکڑوں میل دور اکیلے ٹرک چلانے میں والد کی مددگار بننے کا فیصلہ کیا۔ 21 سال کی عمر میں رائنو نے رقص کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی لی۔ رائنو اب ٹرک میں اپنے والد کے ساتھ سفر کرتی ہے اور ان سے ٹرک ڈرائیونگ کے گُر بھی سیکھتی رہتی ہے۔ اس کے حسن اور ہمت کی بنا پر فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام پر ہزاروں لوگ رائنو کے فالوورز بن چکے ہیں اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب رائنو کو جاپان کی سب سے خوبصورت ٹرک ڈرائیور کے نام سے بھی پکارا جارہا ہے۔ رائنو کو ٹرک چلاتے ہوئے 7 برس ہوگئے ہیں لیکن اب تک اس کی جسامت کے مطابق یونیفارم نہیں مل سکا کیونکہ جیکٹ، پینٹ اور دستانے وغیرہ سب مردوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ مست...

اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم داﺅد ابراہیم کو واپس نہیں لے آتے

dawood ibrahim نئی دہلی : ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک بار دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ملک کے پاس داﺅد ابراہیم کی پاکستان میں موجودگی کے شواہد موجود ہیں اور اسے ہر صورت میں واپس لایا جائے گا۔ ہندوستانی چینیل این ڈی ٹی وی کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چاہے ہمیں پاکستان کے پیچھے لگنا پڑے یا اس پر دباﺅ ڈالنا پڑے، ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم داﺅد ابراہیم کو واپس نہیں لے آتے۔ ہندوستانی وزیر کے مطابق ہماری حکومت اپنی طاقت کے مطابق سب کچھ کرے گی تاکہ داﺅد ابراہیم کو واپس لایا جاسکے۔ راج ناتھ سنگھ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ دنوں ہندوستان کے ہی وزیر مملکت برائے داخلہ امور ہری بھائی چوہدری نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ انڈیا کو معلوم نہیں کہ داﺅد ابراہیم کہاں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ داﺅد ابراہیم کہاں موجود ہے وہ اب تک پتا نہیں چل سکتا ہے، داﺅد ابراہیم کی ملک واپسی کے حوالے سے اقدامات اسی وقت ہوسکتے ہیں جب معلوم ہوجائے کہ وہاں کہاں ہے۔ مگر آج لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا بیان ت...