جہلم سے جنوب مغرب کی جانب لگ بھگ 35 کلو میٹر فاصلہ طے کریں تو آپ ٹلہ جوگیاں پہنچتے ہیں۔
یہ سطح زمین سے بلند اور ایک پُرفضا مقام ہے جسے صدیوں پہلے جوگیوں نے اپنے لیے پسند کیا اور یہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ محققین کے مطابق اس علاقے میں آریہ قوم نے لگ بھگ چار ہزار سال پہلے قدم رکھا تھا۔
وہ مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پنجاب پہنچے اور جہلم کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ اس قوم کے مذہبی پیشوائوں نے پوجا پاٹ کے لیے ’ٹلہ‘ کا انتخاب کیا جو پنجابی میں بلند چوٹی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مقام ٹلہ جوگیاں کہلاتا ہے۔ آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوئوں کا ایک قدیم معبد قرار دیا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس علاقے کی اہمیت گورو گورکھ ناتھ کے یہاں آنے کے بعد مزید بڑھ گئی۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سکندر اعظم نے بھی یہاں کے جوگیوں اور ٹلہ کے بارے میں مختلف پُراسرار باتیں سن کر یہاں کا دورہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ گورو نانک صاحب بھی ٹلہ آئے تھے۔
اس خطے کے بادشاہوں نے بھی ٹلہ کے مذہبی پیشواؤں اور عبادت گزاروں کو سہولیات بھی فراہم کیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر نے علاقہ نوگراں کو ٹلہ کی جاگیر کا درجہ دے کر اس کے محاصل سے اس قدیم علاقے خصوصاً ٹلہ کی تزئین و آرائش کا کام کروایا تھا۔ یہاں مختلف ادوار کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں۔ ان میں مندر، سمادھیاں اور جوگیوں کے رہائشی غار بھی شامل ہیں۔ یہاں مغل طرز کا ایک تالاب بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے جوگیوں کی درخواست پر بادشاہ اکبر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔
( قدیم تہذیب اور تاریخی ورثے کے اوراق سے یہ سطور محسن علی نے منتخب کی ہیں)
The post جوگیوں کا ٹلہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2PW2Vco