اسلام آباد: ملک میں دو جمہوری حکومتوں کی کامیابی کے ساتھ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اب عام انتخابات کے نتیجے میں تیسری جمہوری حکومت معرض وجود میں آنے والی ہے اور اگلے چند روز میں یہ عمل کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے گا اور ملک میں جمہوریت کا یہ تسلسل انتہائی خوش آئند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کو چھ روزگزرگئے مگر ان انتخابات سے اٹھنے والی گرد بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی ہے اورملکی و بین الاقومی سطع پر انتخابات میں دھاندلی بارے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
بین الاقومی میڈیا میں انتخابات کے حوالے سے تنقیدی تجزیئے و آرٹیکلز اورکارٹون شائع ہو رہے ہیں جس میں پاکستانی اداروں کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہے جو کہ کسی طور قابل قبول نہیں ہے اور اس اقدام پر پاکستان کو ان ممالک کے ساتھ سفارتی ذرائع سے معاملہ اٹھانا چاہیئے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک بھی سوشل میڈیا پرخوب گرما گرمی دکھائی دے رہی ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں ہونیوالے دھرنے و احتجاجی سیاست کے نتیجے میں جنم لینے والی نفرتیں انتخابات کے ساتھ ختم ہونے کی بجائے پنپتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لہٰذا لوگوں کے درمیان بڑھتی ہوئی نفرتوں کو ختم کرکے قومی یکجہتی کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کیلئے تمام طبقوں کو بالعموم اور سیاسی رہنماوں کو بالخصوص اپناکردار ادا کرنا ہوگا اور معمولات زندگی کو بھی معمول پر لانا ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کو پُرامن طریقے سے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنا چاہیے۔ ابھی حکومت قائم نہیں ہوئی ہے مگر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بعض حلقوں میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج ہو رہا ہے اور انتخابات میں بھاری تعداد میں ووٹوں کے ضائع و مسترد ہونے کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے ایک بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی بیلٹ پیپر کے حوالے سے ایک انتہائی سنجیدہ و اہم پوائنٹ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جس میں مبینہ طور پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انتخابی بیلٹ پیپر میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے انتخابی نشان کو اس انداز میں پرنٹ کیا گیا ہے جسکی وجہ سے انکی جماعت کے امیدواروں کے بھاری تعداد میں ووٹ ضائع و مسترد کئے گئے ہیں کیونکہ اس جماعت کے ووٹرز کی جانب سے انتخابی نشان پر لگائی جانیوالی مہر کی سیاہی خشک نہ ہونے کے باعث بیلٹ پیپر فولڈ کرنے پر اسکے سامنے بھی اس مہر کا نشان آجاتا جسے ڈبل اسٹمپ تصور کرکے مسترد کردیا گیا جبکہ باقی جماعتوں کے انتخابی نشانات ایسے نہیں تھے لہٰذا یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرے اور اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر ذمہ داران کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ انتخابات متنازعہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
لہٰذا یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کو متنازعہ ہونے سے بچایا جائے اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو جتنا ممکن ہو سکے دور کیا جائے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وکٹری اسپیچ میں اپوزیشن کو جتنے حلقے چاہئیں دوبارہ گنتی کیلئے کھلوانے کی پیشکش کرکے ایک اچھی روایت رکھی اور اس کے بعد ایک درجن کے لگ بھگ حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی۔ اور اب بڑی تعداد میں امیدواروں نے دوبارہ گنتی کے لئے درخواستیں دینا شروع کردی ہیں لیکن اتفاق سے اس کے بعد حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستوں کی منظوری کا عمل رُک گیا جس کی وجہ سے اپوزیشن نے تحریک انصاف کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
البتہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے میچیورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حلف نہ اٹھا کر سڑکوں پر آنے اور احتجاجی مظاہروں و دھرنوں کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے حلف اٹھا کر ایوان میں جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے جس سے نئی حکومت کے معرض وجود میں آتے ہی متوقع آئینی و سیاسی بحران ٹل گیا ہے جس کا کریڈٹ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو جاتا ہے جنہوں نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر سیاسی رہنماوں کو قائل کیا اور منگل کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں متحدہ اپوزیشن نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے کل جماعتی کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کے مطالبہ کو مسترد کردیا ہے اور کل جماعتی کانفرنس کے مطالبات کے ردعمل میں سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے کہا کہ اے پی سی کے اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کے مطالبہ کی سختی سے مذمت کرتے ہیں، اگر کسی امیدوار کو کسی حلقے یا پولنگ اسٹیشن سے شکایت ہے تو قانون کی مطابق اس کا ازالہ کیا جائے گا کوئی شکایت ہے تو آئین میں دیئے گئے طریقے پر عمل کریں۔ البتہ انکا کہنا تھا کہ نتائج میں تاخیر پر صوبائی الیکشن کمشنرز، آر اوز اور پریذائیڈنگ آفیسرز سے وضاحت طلب کی ہے۔
دوسری طرف انتخابات میں برتری حاصل کرنیوالی جماعت تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنانے کیلئے چند قدم پر ہے جس کیلئے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے مشاورت مکمل کر لی ہے اور اپنی کابینہ کے اراکین کے ناموں پر بھی مشاورت کر لی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو سعودی عرب، چین، افغانستان، بھارت، ایران اور مالدیپ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے مبارکباد دی۔
پیغامات بھی وصول ہونا شروع ہوگئے ہیں اور نئی حکومت سازی کیلئے تمام تر تیاریاں بھی اپنے اختتامی مراحل میں ہیں لیکن بین الاقومی سیاست کے بڑے پلیئر سمجھے جانے والے امریکہ، روس ، برطانیہ کی جانب سے اس گرم جوشی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا جس کی توقع کی جا رہی تھی جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے بلکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا حالیہ بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اس بات پر نظر رکھے گا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ممکنہ مالی پیکیج کو چینی قرضوں کی ادائیگی کیلیے استعمال نہ کرنے پائے، انکا کہنا تھا امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے، ایسے بیل آؤٹ کا کوئی جواز نہیں جس سے چینی قرضے ادا کئے جائیں۔ البتہ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
اگلے چند روز میں بننے والی حکومت کیلئے اقتصادی و مالی بحران اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کیلئے اقدامات دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا کیونکہ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے دس ارب ڈالر کے لگ بھگ کی ضرورت ہوگی۔ ابھی تو اگرچہ چین اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے اور چین نے ایک ارب ڈالر فراہم کردیا ہے اور مزید ایک ارب ڈالر بھی جلد ملنے کی توقع ہے اور پھر سعودی عرب کی جانب سے ایک سے دو ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے یہی نہیں بلکہ اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے بھی پاکستان کیلئے ساڑھے چار ارب ڈالر کی آئل فسیلٹی ایکٹیویٹ کی جا رہی ہے ان اقدامات کے یقیناً ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن) پنجاب کی حکمرانی کیلئے بھی بھرپور جوڑ توڑ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ کسی جماعت کے پاس بھی حکومت بنانے کیلئے درکار 148 اراکینِ اسمبلی نہیں ہیں ایسی صورت میں پنجاب سے بطورِ آزاد امیدوار انتخابات جیتنے والے 28 امیدوار نمبر گیم میں خصوصی اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواران حاصل کر سکے، وہ جس طرف گئے اس جماعت کا پلڑا بھاری ہو گا۔ تاہم ایسا کرنے کیلئے پاکستان تحریکِ انصاف کو 28 میں سے 25 آزاد امیدواروں کی حمایت درکار ہو گی جبکہ مسلم لیگ(ن) کو 21 اراکین کی ضرورت ہے دیکھنا یہ ہے کہ اب کون تخت لاہور پر براجمان ہو گا ۔
ملک میں نئی حکومت سازی کے عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی نئے صدر کے انتخاب کا عمل شروع ہو جائے گا جس کیلئے الیکشن کمیشن نے کام شروع کردیا ہے اور صدارتی انتخاب کی سمری تیارکرلی ہے جس کے تحت اگست کے آخری یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں انتخاب کرایا جا سکتا ہے۔ موجودہ صدر مملکت ممنون حسین کی مدت 9 ستمبر2018 کوختم ہو رہی ہے۔ آئین کے تحت الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کی سمری تیارکرکے چیف الیکشن کمشنرکو بھجوا دی ہے، تاہم اس سلسلے میں حتمی شیڈول کا اعلان قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے حلف اٹھانے کے بعد جاری کیاجائے گا۔
The post نئی حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » پاکستان https://ift.tt/2M6nal0