::::: آرٹیکل سیون بی اور سی ، ترمیمی سازش کی شہہ رگ ::::: یہ بات تو طے ہوگئی کہ حکومت کی حلیف جماعتوں بشمول جے یو آئی، اور خود ن لیگ نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ترمیم کی گئی ہے، سپیکر ایاز صادق نے بھیذمہ داری اپنے سر سے اتارنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسے انجانی لغزش باور کرانے کی کوشش کی ہے، لیکن جیسا کہ میں گزشتہ روز بھی عرج کرچکا کہ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اصل مسئلہ حلف نامہ کو اقرار نامہ بنانے اور اب اقرار نامے کو دوبارہ حلف نامہ بنانے سے آگے کا ہے، جو کہ آرٹیکل 7 سیکشن بی اور سی کا ہے، کیونکہ یہی وہ مرکزی سیکشنز ہیں جس کے ذریعے قادیانیت کی وہی تعریف درج ہے، جو آئینِ پاکستان میں قادیانیت کے حوالے سے موجود ہے، دوم یہ کہ اس میں قادیانیوں کو جعل سازی کے ذریعے ووٹ دینے کی سہولت میسر ہوگی، اگر وہ پکڑے جائیں تو ان پر آرٹیکل 62 اور 63 لاگو نہیں ہوگا، اب میڈیا اور اسمبلی میں اس اہم ترمیم کو چھوڑ کر حلف نامہ کو دوبارہ بحال کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، اس حوالے سے بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہ حلف نامہ ایشو فرنٹ پر آیا تو اسے بحال کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ عوام مطمئن رہے، لیکن دراصل قادیانیوں کو ریلیف دینے والی شقیں سیون بی اور سی کو اگر جوں کا توں چھوڑ دیں تو سازش کامیاب ہوسکتی ہے، اس بار کی گئی ترمیم کو "نادانستہ غلطی" قرار دینا انتہائی حماقت اور خباثت ہے، کیونکہ بعینہ یہی ترامیم ضیاء الحق کے دور میں قادیانیوں نے پیش کی تھیں، 1978 میں قادیانی جماعت سے تعلق رکھنے والا سیکرٹری الیکشن کمیشن اے زیڈ فاروقی ضیاءالحق کے سامنے حلف نامے کو اقرار نامہ بنانے کی ترمیم پیش کی، مگر اس وقت علمائے کرام اور عوامی شدید ردعمل کے بعد ضیاء الحق کو خبر ہوئی تو ضیاءالحق نے اس میں آرٹیکل سیون بی اور سی میں شامل شرائط بھی الیکشن قوانین کا حصہ بنا ڈالیں، جو کہ علمائے کرم اور عوام کے بعد ضیاءالحق کی کاوش تھی۔ اب کی بار بھی یہ منظم سازش اور کسی تھنک ٹینک کا نتیجہ فکر ہے، جس کے بعد نوازشریف کی بحالی کی آڑ میں یہ مکروہ کھیل کھیلا گیا، یہاں پر لوگوں کی توجہ منتشر کرنے کیلئے حلف نامہ اور اقرار نامہ کو سامنے رکھ کر آرٹیکل سیون بی اور سی کو چوری چھپے تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب ہوئی تو ہم سب کی تمام کوششوں پر پانی پھر جائے گا، اس حوالے سے تمام پارلیمانی جماعتوں، مذہبی گروہوں، علمائے کرام اور عوام الناس کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے کہ ایک بڑی چوری کو چھپانے کیلئے چھوٹی چوری قبول کرکے جان نہ چھڑائی جائے، اور اس ترمیمی بل پر مکمل طور پر نظر ثانی کی جائے، اس پر ایوان زیریں و بالا میں دوبارہ تفصیلی بحث کروائی جائے، کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی، وزیرلاقانون اور شاہ محمود قریشی کے بیانات میں یہی تاثر دیا گیا کہ ایک ترمیم کی جائے گی، یعنی اقرار نامہ کو دوبارہ حلف نامہ بنایا جائے گا، لیکن آرٹیکل سیون بی اور سی کی جانب کوئی بھی ذمہ دار شخص بات نہیں کرنا چاہ رہا، کیونکہ یہی وہ شہہ رگ ہے جو اس ترمیم کا اصل مقصد تھا، وہ تمام افراد، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عوام جو اس خباثت کیخلاف ہیں، انہیں یہ مطالبہ کرنا چاہیئے کہ صرف ترمیم کے لالی پاپ سے کام نہیں بنے گا، بلکہ اے زیڈ فاروقی قادیانی کے اسلوب پر کی گئی بدترین خیانت کے پیچھے چھپے دماغوں تک رسائی اور انہیں قانونی گرفت میں لانے تک کسی قسم کا سمجھوتہ نہ ہو، یہ نہ ہو کہ بس اقرار نامہ کو حلف نامہ بنا دیا جائے، اور قادیانیوں کیلئے کھولا گیا چور دروازہ اسی طرح کھلا چھوڑا جائے، اس لئے ختمِ نبوتﷺ کے ہر چوکیدار کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ (محمد بلال خان) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ متفق ہیں تو اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں!
Dalesman http://ift.tt/2xK2pYK