
خلافت فاروق اعظم پر ایک نظر
حضرت عمر فاروق نے حضرت ابو بکر کے بعد دس سال چھ ماہ دس دن تک بائیس لاکھ مربع میل زمین پر اسلامی خلافت قائم کی ۔
آپ کے دور میں 3600علاقے فتح ہوئے ۔
آپ کے دور ٩٠٠جامع مساجد اور ٤٠٠٠ عام مسجدیں تعمیر ہوئیں ۔
قیصر و کسریٰ دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ آپ کے دور میں ہو ا ۔
آپ کے عہد میں عدالت کے ایسے بے مثال فیصلے چشم فلک نے دیکھے جن کا چرچا چار وانگ عالم میں پھیل گیا۔
فتوحات عراق ، ایران ،روم ، تُرکستان اور دیگر بلاد عجم پر اسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیدنا فاروق اعظم کا بے مثال کارنامہ ہے ۔
حضرت عمر فاروق کے زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیر مسلم بھی آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔
حقیقت میں آنحضرت ۖ کے آفاقی دین کو تعمیر ترقی کے اوج ثریا پر پہناچنے اور دنیا بھر میں اسلام کی سطوت و شوکت کا سکّہ بٹھانے کا سہرا حضرت فاروق اعظم کے سر ہے ۔
سیدنا عمر بن خطاب کے ارشادات ۔
(1جو شخص راز چھپاتا ہے اُس کا راز اُس کے ہاتھ میں ہے ۔
(2فرمایا لوگوں کی فکر میں اپنے آپ کو نہ بھول جاؤ۔
(3مجھے سائل کے سوال سے اُس کی عقل کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔
(4آدمی نماز روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اُس کے معاملات اور عقل کو دیکھو۔
(5علم عقل کی ذیادتی موقوف نہیں ۔
(6توبہ کی تکلیف سے گنا ہ کا ترک کر دینا زیادہ سہل ہے ۔
(7دولت سر اونچا کئے بغیر نہیں رہتی ۔
(8جو شخص برائی سے آگاہ نہیں وہ ضرور اُ س میں گرفتار ہو گا ۔
(9کسی کی شہرت کا آوازہ سُن کر دھوکا نہ کھاؤ
(10اگر صبر و شکر دو سواریاں ہوتیں تو میں پرواہ نہ کرتا کہ کس پر سوار ہوں
ہم فتوحات ۔
(1چودہ ہجری میں دمشق ،بسرہ، بعلبک کے علاقے فتح کئے اور اسی سال آپ نے پوری اُمت کو تراویح کی نماز پر جمع کیا ۔
(2پندرہ ہجری میں شرق ،اُردن ، یرموک ، قادسیہ کے عظیم الشان معرکے ہوئے اور اسی سال آپ نے کوفہ شہر کی بنیاد رکھی ۔
(3سولہ ہجری میں اھلواز مدائن اور ایران کے کئی علاقوں پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا ۔ اسی سال عراق اسلامی حکومت میں شامل ہوا ۔
(4سولہ ہجری کے اواخر میں تکیت، انطاکیہ ،حلب کی فتوحات کے بعد بغیر جنگ بیت ا لمقدس قبضہ میں آ گیا ۔اسی سال (5حضرت علی المرتضیٰ کے مشورہ سے سن ہجری کا آغا ز کیا گیا ۔حضرت عمر نے آنحضرت ۖ کی ولادت یا وفات کی بجائے مسلمانوں کی فتوحات اور وسعت کا باعث بننے والے واقعہ ہجرت سے اسلام کے نئے سال کا آغاز کر کے تاریخ ساز کازنامہ سرانجام دیا محرم الحرام سے آپ نے اسلامی سال کا آغاز کیا اور اسی ماہ کی یکم کو شہید ہو کر نئے سال کا آغاز ہی قربانی اور جذبہ سے کیا
(6ستّرہ ہجری میں ملک حجاز پر قحط پڑا آپ نے حضرت عباس سے درخوست کی کے آپ حضوسۖ کے چچا اور ہم تمام لوگوں کے بزرگ ہیں بارش کے لئے دُعا فرمائیں حضرت عباس نے دُعا مانگی ۔اے اللہ سفید ریش انسان تیرے دروازے پر حاضر ہوئے اس کی ا ُس قرابت کی وجہ سے جو رسول اللہ ۖ کے ساتھ مجھے حاصل ہے اُس کے وصیلے سے بارش نصیب کر ۔دفعة حبل سلع کی پُشت سے موسلا دھار بارش شروع ہوگئی
خلیفہ ثانی کا مثالی دور حکومت ۔
دامن اسلام اور عہد مصطفوی ۖ جن درخشندہ اور اولو العزم کرداروں سے آراستہ ہے اُن میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کا نام مرکزی حیثیت رکھتا ہے فاروق اعظم کا عدل و انصاف رعا یا پروری ،خداترسی اورطرز حکومت سے دنیا کی ہر قوم ریزہ چینی کر رہی ہے اسلامی مساوات کا سورج عہد فاروقی میں 22لاکھ مربع میل تک سکون اور طمانیت کی روشنی بانٹتا رہا ۔آج کے جمہوری دور، اشتراکی ،شورائی اور سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اصلاحات ، قواعد و ضوابط ،طرز ہائے زندگی ، ہر ہر شعبے اور ہر ہر سوسائٹی کا موازنہ فاروق اعظم کے مثالی دور سے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شریعت محمدی کو چند ہی سالوں میں انسانوں کی فلاح کا سب سے آسان اور سہل ترین ذریعہ قرار دینے والے اُ س خلیفہ نے چودہ سو سال قبل کیا تھا سارے طریقے آزمانے کے بعد بعد بھی رعایاپروری کے اُ ن اصولوں تک جمہوری حکومتیں نہیں پہنچ سکی ہیں ۔حضرت فاروق اعظم کی اصلاحات اور کارناموں پر بڑے بڑے فلاسفر اور حکمران سر دُھن چکے ہیں دنیا کا کوئی مورّخ اور سکالر حضرت عمر کی اصلاحات کو نظر انداز کئے بغیر سستے انصاف کے حامل اُصول رقم نہ کر سکا ۔آپ کا عدالتی نظام دور حاضر کی طرح نہ تھا انتہائی آسان اور سہل انصاف آپ کی خصوصیات میں ہے ۔آپ کے دور میں رشوت ،سفارش جھوٹی گواہی ، جانب داری اور بے ایمانی کا تصوّر ہی نہ تھا خلیفہ وقت بھی عدالت کے رو برو پیش ہو کر جواب دینے کا پابند تھا 18ہجری میں آپ نے نیشاپور ، الجزیرہ ،19 ہجری میں قسیاریہ ،20ہجری میں مصر ،21ہجری میں اسکندریہ اور نہاوند پر اسلام کا پرچم لہرا دیا ۔حضرت فاروق اعظم نے دنیا کے تمام مفتوحہ ممالک کا دورہ کیا ہر شہر اور علاقہ میں کھلی کچہریاں لگائیں موقع پر احکامات جاری کئے حکمرانوں کے دروازوں پر دربان مقرر کرنے پر پابندی لگائی ۔ساری ساری رات بازاروں اور گلیوں کے پہرے دئیے بھوکوں ، پیاسوں ، بے گھروں اور ضرورت مندوں کے پاس خود چل کے گئے ۔ رعایاکی ضروریات پوری کرنے کیلئے رات اور دن کا آرام چھوڑ دیا قحط میں آپ نے گھی اور زیتون کا استعمال ترک کردیا جس سے آپ کا رنگ سیاہ پڑ گیا لیکن آپ رعایا پروری اور غریبوں کے دُکھ درد میں برابر کے شریک رہے آپ کا دور اسلامی تاریخ کا بے مثال دور ہے اس دور کی کہانیاں دیگر مذاہب میں ضرب المثل بن گئیں ایڈورڈ، گبن ، روسو، ویدرک ، برنا ڈشاہ ، گاندھی ، نہرو ، اور عیسائی ،یہودی ، کیمونسٹ سبھی حکمران آپ کے طرز زندگی اور دستور مملکت پر آج تک رطب اللسان ہیں
فرمان عالیشان آقا ئے نامدار سرکار دو عالم ۖ
اے عمر جس راستے پر آپ چل رہے ہوں گے اُس پر تمہیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملے گا وہ مجبور ہوگا کہ اپنا راستہ بدل کر دوسرا راستہ اختیار کرے اہل جنت میں سے ایک اور شخص ابھی ہمارے پاس آنے والا ہے صحابہ کرام نے دیکھا تو آپ کے فرمانے کے بعد حضرت عمر فاروق تشریف لائے تاج دار مدینہۖ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جنّاتی اور انسانی ،شیاطین عمر سے بھاگتے ہیں ۔ایک مرتبہ سرور کونین ۖجبل اُحد پر تشریف لے گئے اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو آپ ۖ نے فرمایا اے اُحد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ۖ،ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔رسالت مآب ۖ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنّت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا اُس محل کی خوبصورتی کے پیش نظر پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطاب کا ۔حضور ۖفرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہو جاؤں مگر اے عمر مجھے تیری غیرت یاد آ گئی اس لئے میں اس کے اندر داخل نہیں ہوا یہ سُن کر حضرت عمر فاروق رو پڑ ے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ آپۖ پر میرے ماں باپ قُربان کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا ۔
مقام سید نا فاروق اعظم ۔
حضرت عمر چالیسویں نمبر پر آنحضرت ۖ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے آپ کی بہادری اور ناموری پہلے سے عرب میں تسلیم تھی لیکن جب آپ اسلام کے خلعت سے آراستہ ہوئے آنحضرت ۖ سمیت خوشی سے نڈھال ہو گئے ۔فرمان رسالت مآب ۖ ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے ۔دوسر ی حدیث میں فرمایا کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمر نبی ہوتے ۔ آپ کا دل آئینہ شفاف کی مانند روشن تھا۔
فضائل و مناقب ۔
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی ستائیس آیات مبارکہ حضرت عمر فاروق کی رائے پر نازل ہوئیں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ سیدنا فاروق اعظم کو اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔آپ کے سنہری کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ دمک رہاہے عدل و انصاف کے باب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ان کے عالی اطوار ، شاندار کردار اور قابل رشک اسوہ حسنہ سے غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔آپ کی شان اقدس میں چالیس سے زائد احادیث رسول ۖ موجود ہیں آپ کو سُسر رسول ۖہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔آپ کے عقد میں آنحضرت ۖ کی نواسی اور سیدنا علی المرتضیٰ ،فاتح خیبر کی صاحبزادی حضرت اُ مّ کلثوم بھی آئیں اس لئے آپ کو خُسر رسول ۖ اور داماد علی المرتضیٰ بھی کہا جاتا ہے ۔
سیدنا فاروق اعظم نبی کریم ۖ کے عم محترم حضرت عباس سے فرماتے ہیں کہ تمہارا اسلام لانا مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ کیونکہ تمہارے اسلام لانے سے جس قدر میرے آقا و مولاۖکو خوشی ہوئی ہے بس میرے لئے وہ خوشی ہے میں اپنی خوشی کو تاج دار مدینہۖ کی خوشی پر قربان کر دیتا ہوں ایک روایت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ نے حضرت عباس سے فرمایا کہ یہ اس لئے کہ میں حضور ۖ کو دیکھا ہے کہ آپ کو یہ بات پسند ہے کہ تم اسلام میں سبقت کرو