Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2020

یہ زبانیں تو رہ گئیں۔۔۔

اکیس دسمبر کو دنیا نے زبانوں کا عالمی دن منایا، ہم نے بھی منایا کیوں کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، ہماری طرح تمام شوہروں نے یہ دن منایا، وہ اس طرح کہ اس روز وہ سُننے کے ساتھ بولے بھی۔ ہمارے دوست بھائی اچھن نے دن کا آغاز بیگم کو بہ آوازبلند پکار کر کیا، گھر میں اپنی اونچی آواز سُن کر وہ خود ہی ڈر گئے۔ بیگم ’’کیا ہے‘‘ کہتی سامنے آئیں تو بھائی اچھن نے دھیرے سے کہا،’’وہ پوچھنا یہ تھا کہ برتن ابھی دھولوں یا بعد میں؟‘‘ ایک اور دوست جلال بہادر جو شاعر ہیں اور جرأت تخلص کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی خاموشی توڑ کر زبانوں کا دن منانے والوں کا ساتھ دیا۔ ہم نے پوچھا آپ کیا بولے، کہنے لگے ’’بیگم نے کہا۔۔۔شاپنگ کے لیے جانا ہے۔۔۔میں نے کہا اچھا چلو۔‘‘ یہ روایات ہم نے ان دونوں حضرات کے ذاتی منہ سے سُن کر بیان کی ہیں۔ اپنی روایت ہم اس لیے بیان نہیں کر رہے کہ ہم منہ میں زبان کے ساتھ شانوں پر سر بھی رکھتے ہیں اور ہمارے دل میں سر کٹوانے کی لاکھ تمنائیں انگڑائی لے رہی ہوں سر پُھٹوانے کی کوئی آرزو جماہی بھی نہیں لے رہی۔ یہ دن تو ہم نے خیر منالیا، لیکن ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس دن ب...

بُک شیلف

پہل اس نے کی تھی مصنف: جبار مرزا۔۔۔قیمت: 1200 روپے۔۔۔صفحات: 320 ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ کینٹ لاہور،0300 0515101 دل کے تار چھیڑنا، اس محاورے کے معنی کا صحیح  اندازہ جبار مرزا کی آپ بیتی پڑھنے پر ہوتا ہے، آپ بیتی شروع کرتے ہی قاری اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے، تحریر اس کے محسوسات کو اتنے شدید انداز میں چھو لیتی ہے کہ وہ آپ بیتی کے کرداروں پر بیتنے والے جبر اور کرب کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ وہ ان کی خوشی میں خوشی محسوس کرتا ہے اور ان کے غم پر افسردہ ہو جاتا ہے۔ مصنف کو قارئین کے دلوں کو مسخر کرنے کے فن میں مکمل مہارت ہے۔  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں ’’ جبار مرزا کو کبھی کبھی میں ’’ تلوار مرزا‘‘ بھی کہہ جاتا ہوں ، اس لئے نہیں کہ ان کی بڑی بڑی نوکدار مونچھیں ہیں ، بلکہ ان کی تحریر کی کاٹ ہی ایسی ہے کہ وہ قلم کو تلوار کر لیتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری سیاست کا کوئی وڈیرہ یا جاگیردار ان سے بچ نکلا ہو ۔ کتاب کے مرکزی کردار ’’ چوہدرانی صاحبہ‘‘ کے لئے ان کا لہجہ بڑا گداز اور پر تاثیر ہے ۔ وضع داری اور پردہ داری کا خاص اہتمام ہے ۔ کتاب میں کہیں پتہ...

ایک دن کا بادشاہ

چترال:  قدرت نے بعض علاقوں اور مقامات کو ہر طرح کی موسمی خوب صورتی اور قدرتی نظاروں سے نوازا ہے، پاکستان میں ملکہ کہسار مری، گلیات، ناردرن ایریاز، سوات، دیر اپنے قدرتی حسن ومناظر کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن چترال کی کالاش وادیوں کی خوب صورتی ہر موسم میں اپنے منفرد کلچر کی وجہ سے ان سب میں یکتا ہے۔ کالاش کی وادی میں اگر ایک طرف پہاڑوں، آبشاروں، قدرتی جنگلات ، پھل دار درختوں ، دودھ کی رنگت جیسا بہتا پانی ، مال مویشی، سبزہ اور ان گنت چیزیں دعوت نظارہ دیتی ہیں تو دوسری جانب ساڑھے چار ہزار سال قدیم تہذیب کے حامل کالاش قبیلے کے لوگوں کی سال بھر نہ ختم ہونے والے اور یکے بعد دیگرے انجام پانے والے تہوار اور رسوم سیاحوں کے لیے انتہائی دل چسپی کا باعث ہیں۔ بہت سارے مقامی وغیرمقامی سیاحوں ا ور لوگوں کا خیال ہے کہ کالاش کی وادیوں کی سردیوں کی خوب صورتی گرمیوں کی نسبت زیادہ دل کش ہوتی ہے اور خود مقامی لوگ بھی سردی کو زیادہ پسند اور اس موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں کیوںکہ سردی کے موسم میں جب وادیاں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں تو کھیتی باڑی اور دیگر کام کاج مکمل طور پر رُک جاتے ہیں اور یہاں باسی ہا...

قائد اعظم کشمیر میں جنگ بند کرنے کے خلاف تھے

( قسط نمبر 3) اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ہی 24 اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا، اور پھر اس کے تین ماہ نو دن بعد 2 فروری 1946 کو اس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سیکرٹری جنرل ناروے کے ٹریگولی Traygve Lie منتخب ہوئے جو اس عہدے پر 10 نومبر 1952 تک فائز رہے، اِن کے دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملد ر آمد شروع ہوا اور بتدریج غلام یعنی نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ملک سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہو کر اقوام متحددہ کے رکن بھی بننے لگے۔ یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی، 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا، جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورا یورپ اور ایشیا میں جاپان، ہانگ کانگ، برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیں بڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئی تھیں، اب ایک جانب خصوصاً مغربی...

سی آئی اے کا ’’آپریشن روبیکون‘‘

گیارہ فروری کو ممتاز امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک انوکھا انکشاف کیا۔ یہ کہ 1970ء سے لے کر 2018ء تک سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی، کرپٹو اے جی (Crypto AG)کی اصل مالک امریکا کی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے تھی۔ کرپٹو اے جی پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی جدید ترین مشینیں بناتی تھی۔اس کا شمار اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی حکومتیں کمپنی کی گاہک  تھیں۔ وہ مسلسل اڑتالیس سال تک کرپٹو اے جی سے سرکاری پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی مشینیں خریدتی رہیں۔مگر ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپنے جن  پیغامات کو وہ خفیہ اور محفوظ سمجھ رہی ہیں،حقیقتاً سبھی امریکی سی آئی اے کی دسترس میں ہیں۔ دراصل سی آئی اے کے ماہرین کرپٹو اے جی کی مشینوں میں ایسے ’’ٹروجن ہارس‘‘ رکھ دیتے تھے کہ بعدازاں ان کی مدد سے حکومتوں کی خفیہ پیغام رسانی تک رسائی حاصل ہوسکے۔اب اس فعل کو ہر کوئی اپنی عینک ہی سے دیکھے گا۔ عام امریکی تو کہہ رہے ہیں کہ سی آئی اے کے کارپردازان نے ذہانت و ہوشیاری کی اعلیٰ مثال قائم کردی۔ انہوں نے مخالفین کی جاسوسی کرنے کے لیے ایسا زبردست طریق کار دریافت کی...

بے تُکی جنگیں!

کہا جاتا ہے کہ جنگ وہ آخری آپشن ہوا کرتا ہے جسے کوئی بھی قوم، دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے بہت سوچ و بچار اور انتہائی مجبوری کے عالم میں استعمال کرتی ہے ورنہ عمومی حالات میں غاصب سے غاصب ملک کی بھی یہ ہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اندرونی سازشوں، سفارتی ریشہ دوانیوں، سیاسی انارکی اور نسلی ولسانی اختلافات جیسے مذموم ہتھ کنڈوں سے ہی کام چلاتے ہوئے دوسرے ملک کو اپنا زیرِدست یا زیرِنگیں بنالے، کیوںکہ جنگ وہ مہلک ہتھیار ہے جو صرف مفتوح ملک کے عوام کو ہی نہیں بلکہ فاتح کہلانے بننے والی قوم کو بھی ٹھیک ٹھاک مالی و جانی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ اِس کے باوجود تاریخ میں جابہ جا ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب ذرا سی بات پر یا چھوٹی سی غلطی یا کسی فردِ واحد کی بے وقوفی کے باعث دو پڑوسی ملک، دو دوست اقوام یا دو دشمن ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد آن کی آن میں متاثر ہو کر اپنی قیمتی جان اور املاک سے محروم ہوگئے۔ تاریخ کے اوراق میں اِن جنگوں کو Foolish Wars  یعنی ’بے وقوفانہ جنگیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ زیرِنظر مضمون میں کچھ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے یا بلاوجہ قسم کے ...

’’اچھا کھانا کھائیں یا بچوں کو پڑھائیں؟‘‘

بھارتی شہر،ممبئی کی باسی تیس سالہ ترپتی کملا پچھلے چھ ماہ سے بہت پریشان ہے۔ وہ ہر دم اس گومگو میں رہتی ہے کہ آخر کس راستے کا انتخاب کرے؟ اپنے چاند سے بیٹے کو اچھی تعلیم دلوائے یا پھر اس کو اچھا کھانا کھلائے؟ ہمارے پڑوس بھارت میں صرف ترپتی ہی نہیں لاکھوں والدین اس مخمصے کا شکار ہیں۔ وجہ یہ کہ پچھلے نو دس ماہ سے بھارت میں خصوصاً اشیائے خورونوش بہت مہنگی ہوچکیں۔وطن عزیز میں ہر طرف یہ شور برپا ہے کہ مہنگائی آسمانوں پر پہنچ چکی اور اس بات میں صداقت بھی ہے ۔مگر ہم وطنوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مہنگائی کا عجوبہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ،اس نے بھارت اور ہمارے دیگر پڑوسیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذا اپنے حکمران طبقے کو سارا الزام دینے سے قبل اردگرد بھی نظر ڈال لیجیے تاکہ تصویر کا دوسرا رخ آپ دیکھ سکیں۔ اب بیچاری ترپتی کملا ہی کو لیجیے۔ وہ ایک گھر میں ملازم ہے۔ دن بھر کام کاج کرکے بارہ ہزار کماتی ہے۔ اس کا شوہر ایک نجی کمپنی سے بطور کلرک وابستہ ہے۔ وہ دس ہزار روپے کمالیتا ہے۔ دونوں میاں بیوی مل جل کر گھریلو اخراجات چلاتے ہیں۔ ان کا ایک چھ سالہ پیارا سا بیٹا ہے۔ دس ماہ قبل تک ...

بھارتی ذرایع اِبلاغ آج سے پہلے کبھی اتنے پست نہیں ہوئے۔۔۔!

نئی دہلی:  کئی مرتبہ آپ کسی سنجیدہ موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے اور یوں آپ اس موضوع پر بھی اظہارِخیال سے قاصر رہ جاتے ہیں اور مستقبل میں کبھی ایسے معاملوں پر رائے زنی کی خواہش کے ساتھ قلم روک لیتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر 2019 کی شام کو رونما ہونے والے ناخوش گوار سانحہ کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت رہی جس میں ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کی بربریت دیکھی گئی۔ لائبریری میں پولیس کے داخلے اور لاٹھی چارج کے کوئی دو ماہ بعد جب 16 فروری 2020ء کو جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی تو ’گودی میڈیا‘ نے اس مسئلے پر اپنا ’ٹرائل‘ شروع کر دیا اور ایک ایسے سچ کو جو بالکل واضح ہے، چھپانے کی کوشش شروع ہو گئی۔ اس دن تو پولیس کی بر بریت کا میں بھی شکار ہوا اور سب واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کرب ناک حادثے کے بعد طلبہ کی جانب سے کچھ چیزیں ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے منظر عام پر آئیں، مگر میڈیا میں انہیں مطلوب مقام نہیں مل سکا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دل دوز ہے، جس میں ’فیکٹ فائنڈن...

اب کچھ برا ہوا تو پہلے سے زیادہ طاقت سے واپس افغانستان جائیں گے، امریکی صدر

 واشنگٹن:  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی کچھ برا ہوا تو اتنی قوت سے واپس افغانستان جائیں گے جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ وائٹ ہاؤس میں خطاب کے دوران امریکا اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے امن معاہدے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت اپنےفوجیوں کو واپس گھر لانے کا ہے جب کہ مستقبل قریب میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ رواں برس مئی تک افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں 5 ہزار تک کمی کی جائے گی جب کہ اگر اب بھی کچھ برا ہوتا ہے تو ہم اتنی قوت سے واپس افغانستان جائیں گے جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ اس خبر کو بھی پڑھیں :  امریکا اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط واضح رہے کہ گزشتہ روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں امن کے لیے امریکا اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق القاعدہ اور داعش پر پابندی ہوگی جبکہ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی۔ امریکا طالبان معاہدے کے مطابق افغانستان میں القاعدہ اور د...

خیبر پختونخوا حکومت کا قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ

پشاور:  خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت  آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا ہیلتھ فاونڈیشن نے باضابطہ آمادگی کے لیٹرز جاری کردئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک بار پھر صوبے میں پی پی ایچ آئی طرز کے تجربے کو دوہرانے کی تیاری کرلی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ سابقہ تجربے کی ہی طرز پر ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کے مالی و انتظامی امور منتخب تنظیموں کو دئیے جائیں گے تاکہ ان اسپتالوں میں طبی سروسز کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میںمعاہدے کےلئے 10 تنظیموں و فرمز نے اپلائی کیا تھا جن میں 9 نے ٹیکنیکلی کوالیفائی کیا، تاہم فائنل بڈنگ میں 3 کو منتخب کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق میڈیکل ایمرجنسی ریسیلنس فاؤنڈیشن (مرف)کو چار اسپتال اور ٹرانس کونٹینیٹل نیشنل انٹیگریٹڈ ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن کو ایک اسپتال آؤٹ سورس معاہدے کے تحت نگرانی میں دیا جائےگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں مولا خان سرئی سروکئی اور  ٹائپ ڈی اسپتال طوئی خلہ کے علاوہ مہمند میں ٹائپ ڈی اسپتال ڈوگر کرم، مامند گیٹ، ایف آر ڈی آ...